اللہ تعالیٰ کی خوشنودی خدمت خلق میں ہے

addd

سوال:سانس کےساتھ طریقہ ذکر میں کیا انسان کے دماغ ، دل اور پھیپھڑوں پرطبعی نقطہء نظر سے کوئی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ جب تنفس کو غیر فطری طریقے سے لیا جاۓ تو اثرات نیک و بد میں احتمال تو ضرور ہے ۔

جواب : کئی طریقہ ہاۓ ذکر ہیں ۔ جو سارے قرون اولی سے ہی شروع ہو گئے تھے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ذکر کرتے تھے لیکن ان کا وجو طبعی طور پر نگاہ مصطفوی ﷺ سے ذاکر ہو گیا جس کی شہادت قرآن کریم میں موجود ہے ۔ مثالی مسلمان کے جو احوال قرآن نے بیان کئے ہیں ( اور چونکہ صحابہ کرام ہی قرآن کے مثالی مسلمان ہیں ) اس کی یہ دلیل دی جاتی ہے ۔ انسان جب اللہ کا ذکر یا اللہ کی آیات یا اللہ کے احکام سنتا ہے تو نہ صرف اس کا دل و دماغ بلکہ اس کی جلد کے جو ذرات میں دل کے جوا جزاء ہیں وہ بھی محسوس کرتے ہیں اور وہ بھی لرز اٹھتے ہیں ۔ پھر یہ ہوتا ہے ۔ ثم تلين جلودهم و قلوبهم الى ذكر الله ۔ کھال سے لے کر قلب تک ہر ذرہ بدن ذاکر ہوتا ہے ۔ تو صحابہ کا تو یہ حال تھا ۔ لیکن اس کے لیے انھیں کوئی محنت و مشقت نہیں کرنا پڑی نگاہ مصطفوی ﷺ سے سارا کام ایک نگاہ سے ہو گیا ۔صحابہ کی صحبت میں تابعین کو محنت نہیں کرنا پڑی ۔ آنے والا پاس بیٹھنے سے ہی تابعی بن گیا ۔ تابعی سے ملاقات کرنے والا تبع تابعی ہو گیا ۔ شیخ کی مجلس میں بیٹھ کر ذکر کرتا ہے تو صحابہ سے بھی ثابت ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیٹھ کر ذکر کرنا خود آ پس میں حلقہ ذکر مسجد نبوی ﷺ میں ثابت ہے ۔

ذکرسے آج تک تو دل و دماغ کی بیماریوں کی اصلاح ہی ہوئی ہے یعنی ہمارے تجربے میں بھی ہے اور اس سے پہلے کے بھی جو حالات ہم نے پڑھے اور سنے ہیں ان میں بھی مریضوں کو شفایاب ہوتے دیکھا ہے ۔ خود مجھے بتیس برس ہو گئے ہیں یہ ذکر کر تے ہوئے اور بتیس برس بڑا عرصہ ہوتا ہے ۔ کوئی مضر اثر ہمارے مشاہدے میں نہیں آیا ۔

حضرت (حضرت مولانا اللہ یار خانؒ (80)اسی سے او پر عمرگزار کر دنیا سے رخصت ہوۓ ۔ آخر تک ان کا دل بھی دماغ بھی دوسروں سے قوی دوسروں سے زیادہ مضبوط تھا ۔ ذاتی یادداشت بھی سب سے اچھی ، دل بھی سب سے ٹھیک تھا ۔ سارے اعضاء بھی درست تھے ۔ ان کی عمر بیت گئی  رات دن اس میں ۔ یعنی کوئی ایک آدمی یا دو آدمیوں یا ایک صدی کی تو بات نہیں ہے ۔ یہاں تو لاکھوں کی تعداد میں ذکر کر رہے ہیں ۔

جہاں تک تعلق ہے اس کو غیر فطری طریقے سے لینے کا ، اگر چلنا ایک فطری عمل ہے تو تیز چلنا یا تیز دوڑ تا غیر فطری کیسے ہو جاۓ گا ۔ اگر سانس لینا ایک فطری عمل ہے تو تیزی سے سانس لینا مشکل تو ضرور ہوسکتا ہے ۔ لیکن اسے غیر فطری کیسے کہا جاۓ گا ؟ ( غیر فطری تو یہ ہے ہی نہیں ۔ یہ تو محض ایک نہ بجھنے کی اور محض ایک کہہ دینے کی بات ہے ۔ لوگ دوڑ تے ہیں ۔ پینتیس میل کی دوڑ کیا غیر فطری ہو جاۓ گی ) ۔ جب غیر فطری ہے ہی نہیں تو غیر فطری کا احتمال کیسا ؟ اور اگر احتمال کولیا جاۓ ۔ تو احتمال تو ہر چیز کے ساتھ ہے ۔ مثلا پانی پینے کے ساتھ احتمال ہے کہ اس سے آ دمی بیمار ہو سکتا ہے ۔ کھانے کے ساتھ احتمال ہے کہ اس سے بیمار ہوسکتا ہے ۔ سونے کے ساتھ احتمال ہے کہ اوپر چھت گر جاۓ گی ۔ گاڑی پر بیٹھے احتمال ہے کہ ایکسیڈنٹ ہو جاۓ گا ۔ ہوائی جہاز میں چڑھتے ہوئے احتمال ہے کہ یہ کریش ہو جاۓ گا تو دنیا کا نظام چھوڑ دیا جاۓ ؟ کہ اس میں تو موت کا یقین ہے پھر زندگی کے کام کر نے سے کیا فائدہ ؟

(ماخوذ محفل شیخ:حضرت امیر محمد اکرم اعوانؒ)

شئیر کریں:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہاں پر ہمارا سب سے اہم پروجیکٹ ملک بھر میں تمام لائبریریزکی فہرست بنانا ان کے لنک اور ان میں موجود کتب کا ریکارڈ بنانا ہے۔ اس لئے اہل علم حضرات سے درخواست ہے کہ آپ کے علم میں کوئی بھی لائبریری ہو تولائبریری کے منتظمین سے ہمارا رابطہ کرایا جائے تاکہ ان میں موجود کتب کی فہرست کوآن لائن کیا جا سکے ۔ہمارے اس کام کا مقصد محققین کے لئے علمی مواد تک رسائی میں آسانی پیدا کرنا ہے۔آپ احباب اس مقصد کے لئے ہمارا ساتھ دئجئے۔

آپکا شکریا

فالو لازمی کریں

SUBSCRIB US

تازہ ترین اشاعتیں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو