اللہ تعالیٰ کی خوشنودی خدمت خلق میں ہے

addd

سوال : کیاذ کر کے لئے سانس تیزی سے لیناضروری ہے؟

 جواب : سانس کے ساتھ تو ہم ذکر کرتے ہی نہیں ۔ ذکر تو قلبی ہوتا ہے ۔ سانس ضر در تیزی سے لیا جاتا ہے اور اگر سانس تیزی سے نہ لیا جاۓ تو پھر قلب پر توجہ کر کے بیٹھ جاؤ ۔ ذکر قلبی ہوتا رہے گا ۔ جبکہ تیزی سے سانس لینے میں دو فائدے ہیں ۔ ایک تو جسم کی حرارت ، حدت خون تیزی کے ساتھ سانس لینے سے بڑھتی ہے ۔ آپ کوئی ایسا کام کر میں جس سے خون میں حدت پیدا ہو مثلا آپ دوڑ لگا کر دیکھ لیں ۔ وزن اٹھا کر دیکھ لیں ۔ جب حدت پیدا ہوگی تو لازما تنفس ، دل کی دھڑکن کا عمل تیز ہوگا ۔۔ جب دل کا عمل تیز ہوگا تو سانس کی آمد وشد تیز ہوگی اور سانس از خود تیز آنا شروع ہوگی ۔ آپ سانس روکنا چاہیں تو نہیں رکے گی ۔ تیز ہوگی چونکہ یہ سارا ایک سسٹم ہے قدرت کا بنایا ہوا کہ جب خون میں حدت پیدا ہوتی ہے تو دل کاعمل تیزی سے خون کولا نے لوٹا نے لگتا ہے ۔ جب دل کی دھڑکن تیز ہو گی تو سانس از خود تیز ہو جاتی ہے تو سانس تیزی سے اس لیے لی جاتی ہے کہ تیز سانس خون میں حدت پیدا کرتی ہے ۔ یعنی وہی عمل لونے گا ۔ جب خون میں حدت پیدا ہوتی ہے تو وہ انوارات کو جذب کرنے کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے ۔ جیسے آپ ایک رنگ کو پانی میں گھول کر کپٹراڈ یو دیتے ہیں تو کپٹرے پر رنگ تو چڑھ جاتا ہے لیکن اسی رنگ کو پانی میں گھول کر کڑاہی میں ڈال کر کاڑھایا جائے اور پھر اس میں کپڑا ڈبو د میں تو اس پر بھی رنگ چڑھ جاتا ہے ۔ رنگ تو وہی ہے رنگت میں کوئی فرق نہ پڑا ۔ جس کپڑے کو بغیر کاڑھے رنگ چڑھایا تھا اسے ایک دفعہ پانی میں جھول کر دیکھیں کپڑ اصاف ہو جائے گا ۔ نہیں تو ڈب کھٹر ہا تو ہو جاۓ گا یا ایک دفعہ دھو کر اتر جائے گا ۔ جبکہ جسے آپ نے کاڑھ کر چڑھایا ہے ساری زندگی کپڑے سے نہیں جاۓ گا ۔ اسی طرح بغیر تیزی سے سانس لیے آپ بیٹھ جائیں انوارات تو پڑیں گے لیکن جب آپ اٹھیں گے تو اس میں اس طرح جذب نہیں ہوں گے ۔ جس طرح آپ تیزی سے سانس لے کر خون میں حدت پیدا کر کے جذب کر تے ہیں ۔اس لیے تمام طریقہ ہاۓ ذکر میں بطور ایک اصول کے مکمل ایک طریقے سے اس طرح سانس لینا صرف ہمارے ہاں ہے ۔ باقیوں میں آپشنل ہے ۔ کوئی چاہے کرے ۔ کوئی چاہے نہ کرے اور عموماً بہت کامل اساتذہ اور مشائخ نے ایک لطیفے کے لیے کم از کم ایک سال عرصہ رکھا ہے ۔ سالک تیزی سے سانس نہ لے ، آرام سے بیٹھ کر قلب پر توجہ کرے ، شیخ کی مجلس میں رہے ۔ دوسال صحبت شیخ میں رہ کر صبح شام توجہ کرے تو دو سال میں ایک لطیفہ کر سکے گا اور وہ بھی کامل مشائخ سے جو بہت اولوالعزم ہوۓ ہیں ۔ ہمارے ایک بزرگ ساتھی ہوا کرتے تھے ۔انھوں نے اپنے شیخ سے چودہ سال میں پانچ لطیفے سیکھے ۔

چودہ برس میں پانچ میں لطیفے پر سبق تھا کہ شیخ فوت ہو گئے ۔ ورنہ شاید ایک دوسال اور انھیں پانچویں لطیفے پر لگتے ۔ بہر حال چودہ برس مسلسل شیخ کے ساتھ رہ کر پانچ میں لطیفے تک پہنچے ۔ سانس تیزی سے نہ بھی لیا جائے تو وہ مقصد تو حل ہو جا تا ہے لیکن چونکہ وہ قوت جاذبہ جو ہے وہ قلب میں اور وجود انسانی میں اس درجہ تک کا م نہیں کرتی لہذا پیریڈ یعنی وقفہ بڑھ جاتا ہے اور اس طرح ذکر کر نے سے چونکہ خون میں حدت پیدا ہوتی ہے اور انوارات کو جذب کرنے کے لیے قلب میں اور خون کی حدت میں قوت جاذبہ بڑھ جاتی ہے ۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ ایک توجہ میں سات لطائف روشن ہو  جاتے ہیں ۔ یہ معمولی سا فرق ہے آرام سے ذکر کرنے میں اور تیزی سے سانس لینے میں ۔

(ماخوذ محفل شیخ:حضرت امیر محمد اکرم اعوانؒ)
شئیر کریں:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہاں پر ہمارا سب سے اہم پروجیکٹ ملک بھر میں تمام لائبریریزکی فہرست بنانا ان کے لنک اور ان میں موجود کتب کا ریکارڈ بنانا ہے۔ اس لئے اہل علم حضرات سے درخواست ہے کہ آپ کے علم میں کوئی بھی لائبریری ہو تولائبریری کے منتظمین سے ہمارا رابطہ کرایا جائے تاکہ ان میں موجود کتب کی فہرست کوآن لائن کیا جا سکے ۔ہمارے اس کام کا مقصد محققین کے لئے علمی مواد تک رسائی میں آسانی پیدا کرنا ہے۔آپ احباب اس مقصد کے لئے ہمارا ساتھ دئجئے۔

آپکا شکریا

فالو لازمی کریں

SUBSCRIB US

تازہ ترین اشاعتیں

مشہور اشاعتیں

بلاگ آرکائیو